باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو
جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنا لیں تم کو
باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو
جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنا لیں تم کو
دھیان میں آ کر بیٹھ گئے ہو تم بھی ناں
مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو تم بھی ناں
دوا کی تلاش میں رہا
دعا کو چھوڑ کر
یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے
میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے
ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
اقبال تیری عظمت کی داستاں کیا سناؤں
تیری زندگی پہ لکھوں تو الفاظ نہ پاؤں
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکل
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیو
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
کوئی تیری طرح سے ہے بھی تو پھر بھی تو نہیں
یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا میں تُو نہیں
محبت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
جو قاتل کو بھی رُسوا کر دے ایسا وار ہونا ہے
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا
میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے
تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا